نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایرانی حکومت مخالف ریلیاں تیزی کے ساتھ روز بروز آگے بڑھ رہی ہیں جو آج ساتویں ہفتے میں داخل ہو گئی ہیں اور ہزاروں مظاہرین گزشتہ روز جنوب مشرقی شہر زاہدان کے مرکز میں اترے ہیں اور سپریم لیڈر علی خامنئی کی مذمت میں نعرے لگا رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ اور آنسو گیس داغے ہیں جس کے اگلے روز ہی سیکیورٹی اہلکاروں کو برطرف کیا گیا جن میں زاہدان کے پولیس سربراہ بھی شامل ہیں اور سیکیورٹی کونسل نے کہا ہے کہ مسلح مخالفین ہی تھے جنہوں نے جھڑپیں شروع کی ہے جس کی وجہ سے بے گناہوں کی ہلاکت ہوئی ہے لیکن انہوں نے پولیس کی طرف سے کمیوں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے اور ویڈیو ریکارڈنگ میں زاہدان میں نماز جمعہ کی جگہ مکی مسجد اور آس پاس کی گلیوں میں خون کے نشانات دکھائے گئے ہیں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ ملک کے شمال مغرب میں مہا آباد میں جمعرات کو ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات میں سینکڑوں افراد کے شرکت کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں ہیں اور ایرانی پارلیمنٹ میں شہر کے نمائندے، نمائندہ جلال محمود زادہ نے سیکورٹی فورسز کو ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پرامن ریلیوں میں گولہ بارود کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟(۔۔۔) ہفتہ 04 ربیع الثانی 1444ہجری - 29 اکتوبر 2022ء شمارہ نمبر[16041]
مشاركة :